اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیف جسٹس آف پاکستان ،مسٹر جسٹس گلزار احمد اور مجموعی طور پر ملک بھر کی عدلیہ کے خلاف توہین آمیز تقریر کرکے اسے سوشل میڈیا پر وائرل کر نے سے متعلق ایف آئی اے کے مقدمہ کے ملزم مسعود الرحمن عباسی کی ضمانت منظوری کا تحریری فیصلہ جاری کردیاجس کے مطابق عوامی تنقید سے جج کی آزادی متاثر نہیں ہوتی۔8 صفحات پر مشتمل یہ تحریری فیصلہ چیف جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سنگل بنچ کی جانب سے جاری کیا گیا ہے جس میں عدالت نے ملزم کی ضمانت کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے 5 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض اسے رہا کرنے کاحکم جاری کیا ہے ،عدالت نے قرار دیا ہے کہ ایک جج بھی تنقید سے محفوظ نہیں ہے، عوامی تنقید سے جج کی آزادی کسی بھی طرح متاثر نہیں ہوتی ہے تاہم عدلیہ اور ججوں سے متعلق غیر سوچی سمجھی تنقید، سخت اور غیر شائستہ زبان استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے،فیصلے میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ ملزم مسعود الرحمان عباسی کو جون 2021 میں ایف آئی اے نے فوجداری مقدمے کے اندراج کے بعد گرفتار کیا ہے ، شہری محمد سہیل کی شکایت پر ملزم کے خلاف پاکستان پینل کوڈ اور پیکا ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے، درخواست گزار کے خلاف مقدمہ ریکارڈ شدہ تقریر کی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد درج کیا گیاہے ،درخواست گزار نے چیف جسٹس آف پاکستان پر سخت اور ناپسندیدہ زبان استعمال کرتے ہوئے تنقید کی تھی،شکایت کنندہ شہری نے یہ الزام نہیں لگایا کہ اس کی بدنامی ہوئی ہے یا اس کی ساکھ کو کسی طرح سے نقصان پہنچایا گیا ہے،ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور تفتیشی افسر شکایت کنندہ کے لوکس سٹینڈائی ( حق دعویٰ/متاثرہ شہری ہونے ) کے حوالے سے عدالت کو مطمئن نہ کر پائے ہیں،اس بات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ایف آئی اے ملک کے اعلیٰ ترین عدالتی افسر کے خلاف بیانات سے متاثر ہوئی ہو،عدالتوں کا فرض ہے کہ وہ ایسے ملزم ا منصفانہ ٹرائل کریں جس پر عدالتی افسر سے متعلق جرم کا الزام ہو۔
0 Comments