سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63اے سے متعلق صدارتی ریفرنس لارجر بنچ میں سننے کا فیصلہ کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ عدم اعتماد سیاسی معاملہ ہے، سیاسی جنگ پارلیمنٹ میں لڑی جائے، کسی کو ووٹ سے نہیں روکا جاسکتا، جمہوریت برقراررکھنے کیلئے مصالحت کا کردار ادا کر رہے ہیں.

  چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ حساس موقع ہے، تمام سیاسی طاقتیں احتیاط اور ذمہ داری کا مظاہرہ کر کے جمہوریت کو مضبوط کریں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 63اے کے نتائج اپنی جگہ لیکن عدم اعتماد کے عمل کو نہیں روکا جائیگا.

آئین اورعدالتی فیصلوں کی روسے ووٹ پارٹی کا ہوتا ہے، انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں،اٹارنی جنرل نے کہا یقین دلاتا ہوں کسی کو ووٹ سے نہیں روکا جائیگا، سندھ ہائوس واقعے کا کوئی دفاع نہیں، وزیراعظم نے احتجاج پرامن رکھنے کی ہدایت کردی، عدالت عظمیٰ نے صدارتی ریفرنس کیلئے لارجر بنچ قائم کر دیا کیس سماعت جمعرات کو ہوگی۔
پیر کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میںجسٹس منیب اختر پر مشتمل دو رکنی بنچ نے صدارتی ریفرنس پر سیاسی جماعتوں سے جامع جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی اتحادی سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری نہیں کر رہے لیکن کوئی حکومتی اتحادی سیاسی جماعت چاہے تو اپنا جواب جمع کرا سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جواب مختصر اور جامع ہو، ضروری ہوا تو وکلا کو سنیں گے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی آئینی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریما رکس دئیے کہ اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ووٹنگ وقت پر ہو گی اور کسی رکن اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے نہیں رو کا جائیگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جتھے لا کر کسی رکن اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کی اجازت نہیں دینگے.
پارلیمنٹ خود مختار ادارہ ہے اور پارلیمانی جمہوریت میں پارلیمنٹ کو مرکزیت حاصل ہے، ہم پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتے، عدم اعتماد کیلئے وہی طریقہ کار ہوگا جو آئین میں ہے، ہم قواعد وضوابط نہیں دیکھ سکتے، معاملے کے آئینی پہلو دیکھیں گے.
یہ حساس موقع ہے، تمام سیاسی طاقتیں احتیاط اور ذمہ داری کا مظاہرہ کر کے جمہوریت کو مضبوط کریں، تمام سیاسی جماعتی اجتماعی سیاسی دانش، ہم آہنگی، وقار اور بالغ نظری سے معاملہ حل کریں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ حکومت اپنی ذمہ داری سے آگاہ ہے، پارلیمنٹ کی کارروائی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی، سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ انتظامی اتھارٹی حکومت کے غیر قانونی احکامات کی پابند نہیں، 63 اے کے نتائج اپنی جگہ ہونگے لیکن عدم اعتماد کے عمل کو نہیں روکا جائے گا۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے تحریک عدم اعتماد کے دن اراکین اسمبلی کو باحفاظت اسمبلی پہنچنے کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ میری ذاتی رائے ہے کہ منحرف رکن کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اراکین اسمبلی کو اسمبلی پہنچنے میں رکاوٹ پیدا کرنے کے مسئلے پر وزیراعظم سے بات کی، حلفاً کہتا ہوں کہ اجلاس کے دن کسی کو اسمبلی آتے وقت ہجوم سے گزرنا نہیں پڑیگا۔
تحریک عدم اعتماد کے دن باہر کوئی ہجوم نہیں ہو گا۔ تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے سندھ ہاؤس پر حملے کی واضح الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ ہم جمہوریت، امن وعامہ اور پرامن احتجاج پر یقین رکھتے ہیں۔
سماعت کے دوران جمعیت علماءاسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر مینگل اور عوامی نیشنل پارٹی کے امیر سمیت بڑی تعداد میں اراکین پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے قائدین کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ اسپیکر نے 25 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا ہے حالانکہ آرٹیکل54(3) کے تحت 14 دن میں اجلاس بلانا لازم ہے، 14 دن سے زیادہ اجلاس میں تاخیر کرنے کا کوئی استحقاق نہیں، حزب اختلاف کی ریکوزیشن 8مارچ کو جمع ہوئی اس حساب سے22مارچ کو اجلاس طلب کرنا آئینی تقاضا ہے

Const.P.2/2022
Supreme Court Bar Association of Pakistan through its President, Supreme Court Building, Islamabad v. Federation of Pakistan through Secretary, Ministry of Interior, Islamabad and others
Mr. Justice Umar Ata Bandial
21-03-2022







Post a Comment

0 Comments

close