سٹیچوٹری گراؤنڈ پر ضمانت کے حوالے سے سپریم کورٹ کا ایک انتہائی اہم اور تاریخ ساز فیصلہ !

 PLD 2024 SC 942

فیصلے کی تفصیل میں جانے سے پہلے کیس کے مختصر حقائق کچھ یوں ہیں کہ :
روحان احمد نامی ملزم کے خلاف چھبیس مئ دو ہزار بیس کو ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے مجموعہ تعزیرات پاکستان کے دفعہ دو سو پچانوے بی ، دو سو اٹھانوے سی ، ایک سو بیس بی ، ایک سو نو، چونتیس اور پیکا ایکٹ کے دفعہ گیارہ کے تحت اس وجہ سے ایف آئی آر کا اندراج کیا جاتا ہے کہ ملزم روحان پر یہ الزام ہوتا ہے کہ اس نے شکایت کنندہ کو نہ صرف موبائل ایس ایم ایس بلکہ واٹسپ پر بھی گستاخانہ مواد بھیجا بلکہ بعد میں ایف آئی اے کی جانب سے چھاپے کے دوران گستاخانہ مواد برآمد بھی ہوا۔ ایف آئی اے کی جانب سے ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ملزم کو چھبیس مئ دو ہزار بیس کو ہی گرفتار کر دیا جاتا ہے جس کے خلاف ملزم عدالت سے رجوع کر کے درخواست ضمانت دائر کر دیتا ہے لیکن ملزم کی یہ درخواست عدالت کی جانب سے چھبیس اگست دو ہزار اکیس کو خارج کر دیتی ہے جس کے بعد ملزم عدالت عالیہ لاہور سے نہ صرف میرٹ پر بلکہ سٹیچوٹری گراؤنڈ پر بھی ضمانت کی استدعا کرتا ہے لیکن بائیس اگست دو ہزار تئیس کو ملزم کی یہ درخواست بھی کر دی جاتی ہے۔ عدالت عالیہ لاہور سے درخواست ضمانت خارج ہونے کے بعد ملزم کی جانب سے بدیں وجہ سپریم کورٹ میں لیو ٹو اپیل کی درخواست دائر کی جاتی ہے جس کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ بشمول جسٹس سید منصور علی شاہ صاحب ، جسٹس جمال مندوخیل صاحب اور جسٹس اطہر من اللہ صاحب کے سامنے مقرر کیا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کا آغاز اس نکتے سے کیا ہے کہ ملزم کو پولیس کی جانب چھبیس مئ دو ہزار بیس کو گرفتار کیا گیا لیکن شومئی قسمت کہ ٹرائل کے دوران ملزم کی جانب سے ضابطہ فوجداری کے دفعہ دو سو پینسٹھ-سی کے تحت ایک درخواست جمع کی جاتی ہے کہ مجھے وہ تمام کاغذات مہیا کئے جائیں جن کا زکر پولیس رپورٹ میں ہے لیکن ٹرائل کورٹ ملزم کی یہ درخواست خارج کر دیتی ہے جس کے بعد ملزم ٹرائل کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف عدالت عالیہ لاہور سے رجوع کرتا ہے جس پر عدالت عالیہ نے سات ستمبر دو ہزار اکیس کو درخواست پر فیصلے کی بجائے ملزم کے خلاف کارروائی کو عدالت عالیہ کے فیصلے تک ملتوی کرنے کا حکم دے دیتی ہے جس کے بعد اصل مسئلہ یہاں پر پیدا ہوا کہ ملزم کی

Post a Comment

0 Comments

close