چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ بانیٔ پی ٹی آئی ثابت نہیں کر سکے کہ نیب ترامیم غیر آئینی ہیں۔
سپریم کورٹ نے فیصلہ پانچ صفر سے سنایا ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر 3 ماہ بعد محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے نیب ترامیم بحال کر دیں۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ 3 رکنی بینچ کا فیصلہ ثابت نہیں کر سکا کہ نیب ترامیم آئین سے متصادم تھیں۔
16 صفحات پر مشتمل فیصلہ
16 صفحات پر مشتمل سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نیب قانون سابق آرمی چیف پرویز مشرف نے زبردستی اقتدار میں آنے کے 34 دن بعد بنایا، پرویز مشرف نے آئینی جمہوری آرڈر کو باہر پھینکا اور اپنے لیے قانون سازی کی، انہوں نے اعلیٰ عدلیہ کے ان ججز کو ہٹایا جنہوں نے غیر آئینی اقدام کی توسیع نہیں کی۔
فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ آئین میں عدلیہ اور مقننہ کا کردار واضح ہے، عدلیہ اور مقننہ کو ایک دوسرے کی دائرہ کار میں مداخلت پر نہایت احتیاط کرنی چاہیے، آئین میں دیے گئے فرائض کی انجام دہی کے دوران بہتر ہے کہ ادارے عوام کی خدمت کریں۔
عدالت کا فیصلے میں کہنا ہے کہ آئین میں عدلیہ اور مقننہ کا کردار واضح ہے، عدلیہ اور مقننہ کو ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت پر نہایت احتیاط کرنی چاہیے، آئین میں دیے گئے فرائض کی انجام دہی کے دوران بہتر ہے کہ ادارے عوام کی خدمت کریں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان اور سپریم کورٹ ججز پارلیمنٹ کے گیٹ کیپرز نہیں، مشرف دور میں بنائے گئے قانون کے دیباچے میں لکھا گیا ہے کہ نیب قانون کا مقصد کرپشن کا سدباب ہے، جن سیاستدانوں یا سیاسی جماعت نے پرویز مشرف کو جوائن کیا انہیں بری کر دیا گیا، نیب قانون کا اصل مقصد سیاستدانوں کو سیاسی انتقام یا سیاسی انجینئرنگ تھا۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون نیب ترامیم کی درخواست پر فیصلے سے 5 ماہ پہلے بنایا گیا، نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر 5 رکنی بینچ بنانے کی استدعا کو مسترد کیا گیا، جسٹس منصور علی شاہ نے نشاندہی کی کہ نیب ترامیم پر 5 رکنی بینچ بنایا جائے، جسٹس منصور خود کو الگ کر لیتے تو 2 ممبرز نیب ترامیم کے خلاف درخواست سن سکتے تھے نہ فیصلہ کر سکتے تھے۔
فیصلے میں عدالت کا کہنا ہے کہ سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے آپریشن کو معطل کیا، اس قانون کو معطل کرنے کے بعد کیس دوبارہ نہیں سنا گیا،اس قانون کے خلاف درخواستوں کو 100 دن تک نہیں سنا گیا،قانون کے خلاف درخواستوں پر 18 ستمبر 2023ء کوسماعت ہوئی۔
عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کہا گیا ہے کہ نیب قانون میں 3 ترامیم کی گئیں، پہلا ایکٹ 22 جون 2022ء کو نافذ کیا گیا، نیب قانون میں دوسری ترمیم 22 اگست 2022ء کو کی گئی، نیب قانون میں تیسری ترمیم 29 مئی 2023ء کو کی گئی، جب نیب ترامیم کے خلاف مقدمے کی 6 سماعتیں ہو چکی تھیں تو تیسری ترمیم لائی گئی، نیب قانون کی تیسری ترمیم کا سپریم کورٹ نے فیصلے میں جائزہ ہی نہیں لیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کو قانون سازی کو جلد ختم کرنے کے بجائے اسے بحال رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اگر کسی قانون کی 2 تشریحات ہوں تو قانون کے حق میں آنے والی تشریح کو تسلیم کیا جائے گا، درخواست اور سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کے مطابق نہیں، موجودہ مقدمے میں بھی ترامیم غیر آئینی ہونے سے متعلق قائل نہیں ہو سکے، ان ترامیم میں سے بہت سی ترامیم کے معمار مسٹر نیازی خود تھے، مسٹر نیازی نے نیک نیتی سے درخواست دائر نہیں کی۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ نیب قانون کی تیسری ترمیم ٹرائل اور عدالتوں کی کارروائی سے متعلق ہے، مسٹر نیازی کو ایڈووکیٹ خواجہ حارث کی خدمات سرکاری خرچ پر دی گئیں، تاہم وکیل خواجہ حارث نے بغیر پیسوں کے مسٹر نیازی کی نمائندگی کی۔
عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ نیب ترامیم کیس جب زیرِ التواء تھا تو پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون آیا، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون میں کہا گیا کہ آئینی تشریح کا کیس کم از کم 5 رکنی بینچ سنے گا، 3 رکنی بینچ میں شامل جسٹس منصور نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا فیصلہ پہلے ہونا چاہیے، سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کا نیب ترامیم کیس سننا پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے متضاد تھا، مسٹر نیازی کی درخواست سپریم کورٹ میں قابلِ سماعت ہی نہیں تھی۔
فیصلے میں عدالت کا کہنا ہے کہ نیب کے فیصلے میں نہیں بتایا گیا کہ نیب ترامیم بنیادی حقوق سے متصادم کیسے ہیں؟ محض بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کہہ دینے سے آرٹیکل 184/3 کا اختیار استعمال نہیں کیا جا سکتا، مسٹر نیازی اور وکیل خواجہ حارث ترامیم کے بنیادی حقوق سے متصادم ہونے پر مطمئن نہ کر سکے۔
عدالتِ عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ کا کام قانون سازی کرنا ہے، جب تک قانون کالعدم نہ ہو سپریم کورٹ اور دیگر عدالتیں قانون پر عمل کی پابند ہیں، جب تک قانون کالعدم نہ ہو اس کا احترام ہونا چاہیے، پارلیمنٹ آئین سے منافی قانون بنائے تو عدالت کا کالعدم کرنے کا اختیار ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 3 رکنی بینچ کے اکثریتی ججز نے ترامیم کا آئین کے تناظر میں جائزہ نہیں لیا، قانون کو ججز کا اپنے کرائیٹیریا یا پیمانے سے پرکھنے کی آئین اجازت نہیں دیتا، ججز اپنے حلف کے مطابق آئین و قانون کے پابند ہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ کا اضافی نوٹ
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے فیصلے میں اضافی نوٹ بھی لکھا ہے جس کے مطابق جسٹس اطہر من اللّٰہ نے حکومت کی اپیل خارج کر دی اور کہا ہے کہ حکومت کی اپیل ناقابلِ سماعت ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا ہے کہ چیف جسٹس کے فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں، حکومتی اپیلیں پریکٹس پروسیجر قانون کے تحت قابلِ سماعت نہیں، حکومت کی انٹرا اپیلیں مسترد، متاثرہ فریقین کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کی جاتی ہیں، نیب ترامیم کے خلاف فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، ججز اور آرمی فورسز کے ارکان کو نیب قانون سے استثنیٰ حاصل نہیں، اضافی نوٹ کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔
جسٹس حسن اظہر رضوی کا بھی اضافی نوٹ
جسٹس حسن اظہر رضوی نے بھی اضافی نوٹ لکھا ہے جس میں انہوں نے فیصلے سے اتفاق لیکن وجوہات سے اختلاف کیا ہے۔
تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیا جائے گا۔
کیس کا پسِ منظر
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے دورِ حکومت میں نیب ترامیم منظور کی گئی تھیں، نیب قوانین کے سیکشن 2، 4، 5، 6، 14، 15، 21، 23، 25 اور 26 میں ترامیم کی گئی تھیں۔
نیب ترامیم کے خلاف بانیٔ پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس پر اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 5 ستمبر 2023ء کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 15ستمبر 2023ء کو بانیٔ پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم کالعدم قرار دیں۔
سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے نیب ترامیم کی 10 میں سے 9 ترامیم کالعدم قرار دی تھیں۔
جس پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کیں۔
بانیٔ پی ٹی آئی نے نیب ترامیم کیس میں دائر اپیلوں پر ذاتی حیثیت میں دلائل دینے کی درخواست دائر کی تھی۔
سپریم کورٹ نے 10 مئی 2024ء کو انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
لارجر بینچ نے بانیٔ پی ٹی آئی کی بذریعہ ویڈیو لنک پیشی کی اجازت دی تھی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے 3 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف دائر وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت مکمل ہونے کے بعد 6 جون 2024ء کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
نیب ترامیم کے تحت بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھا، نیب ترامیم کو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے آغاز سے نافذ قرار دیا گیا تھا، نیب ترامیم کے تحت نیب 50 کروڑ سے کم مالیت کے معاملات کی تحقیقات نہیں کر سکتا، ترمیم کے تحت نیب دھوکا دہی کے مقدمے کی تحقیقات تب ہی کر سکتا ہے جب متاثرین 100 سے زیادہ ہوں۔
نیب ترامیم کے تحت ملزم کا زیادہ سے زیادہ 14 دن کا ریمانڈ لے سکتا ہے جسے بعد میں 30 دن تک بڑھا گیا، ترامیم کے تحت نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا تھا۔
0 Comments