جھوٹی FIR کو ختم کروانے کا طریقہ کار ایف آئی آر کس طرح خارج کرائی جائے؟

مخالفین کو پھنسانے کیلئے جھوٹی اور فرضی کہانیوں پر مبنی ایف آئی آرز درج کرانا پاکستان میں عام ہے۔کسی کیخلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کرانا ایک جرم ہے۔جس کی سزا7 سال تک قید ہوسکتی ہے۔ (دفعہ 182 تعزیرات پاکستان) اسی طرح اس جھوٹی ایف آئی آر میں درج کی گئی کہانی کے گواہوں کو بھی جھوٹی گواہی دینے پرسخت سزائیں مقرر ہیں (سیکشنز 193،194 پاکستان پینل کوڈ) جھوٹٰی گواہی دینے والے کو سزائے موت تک دی جاسکتی ہے۔
آپ کیخلاف جھوٹی ایف آئی آر درج ہوجائے تو کیا کریں؟
اگر ایف آئی آر کے اندراج کے بعد آپ کا چالان متعلقہ عدالت میں پیش نہیں ہوا اور اس پر ٹرائل شروع نہیں ہوا تو آپ آئین کے آرٹیکل 199 اور ضابطہ فوجداری کی دفعہ 561اے کے تحت اس ایف آئی آر کے اخراج کیلئے ہائیکورٹ میں رٹ دائر کر سکتے ہیں۔آپ اپنا کیس ثابت کرتے ہیں تو ہائیکورٹ یہ ایف آئی آر خارج کرنے کا حکم دے گی۔
اسکی ایک مثال 2008 میں ہائیکورٹ کے جج جسٹس کاظم علی ملک کے ایک فیصلے سے دوں گا۔اس کیس میں مخالفین کا آپس میں لین دین کا کوئی مسئلہ تھا۔ایک فیکٹری کے مالک نے ایک شخص سے تیل خریدا تھا اور ادائیگی نہیں کی تھی۔یہ دیوانی عدالت کا معاملہ تھا لیکن مدعی نے پولیس سے ملی بھگت کر کے فیکٹری مالک کیخلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 406 کے تحت مقدمہ درج کرا دیا۔عدالت نے یہ ایف آئی آر خارج کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ یہ دیوانی عدالت کا مسئلہ ہے پولیس نے اپنے اختیار سے تجاوز کیا،نہ صرف یہ بلکہ ایف آئی درج کرنے والے تھانہ باغبانپورہ لاہور کے سب انسپکٹر اصغر علی اور تفتیشی سب انسپکٹر عرفان علی کو رٹ کرنے والے شخص کو 50 ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا۔
2008 YLR 2695.
تاہم اگر اس ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ملزم کا چالان پیش کر دیا گیا اور ٹرائل شروع ہوگیا ہو تو ہائیکورٹ اسے اس نچلی عدالت سے ہی ریلیف لینے کی ہدایت کرتی ہے۔اس صورت میں مجسٹریٹ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 249 اے اور سیشن جج ضابطہ فوجداری کی دفعہ 265 کے کے تحت ملزم کو کسی بھی وقت مقدمہ سے بری کرسکتا ہے۔
پولیس رولز 1934 کا قانون نمبر 24 اعشاریہ 7 متعلقہ پولیس افسر کو بھی یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ درج شدہ ایف آئی آر کو منسوخ کرسکتا ہے

Post a Comment

0 Comments

close